عالم عالم عشق و جنوں ہے دنیا دنیا تہمت ہے

عالم عالم عشق و جنوں ہے دنیا دنیا تہمت ہے 
دریا دریا روتا ہوں میں صحرا صحرا وحشت ہے 
ہم تو عشق میں ناکس ٹھہرے کوئی نہ ایدھر دیکھے گا 
آنکھ اٹھا کر وہ دیکھے تو یہ بھی اس کی مروت ہے 
ہائے غیوری جس کے دیکھے جی ہی نکلتا ہے اپنا 
دیکھیے اس کی اور نہیں پھر عشق کی یہ بھی غیرت ہے 
کوئی دم رونق مجلس کی اور بھی ہے اس دم کے ساتھ 
یعنی چراغ صبح سے ہیں ہم دم اپنا بھی غنیمت ہے 
خط آئے ظاہر ہے ہم پر بگڑی بھی اچھی صورت تھی 
بارے کہو ناکام ہی ہو یا کام کی بھی کچھ صورت ہے 
ایک ورق پر تصویریں میں دیکھی ہیں لیلیٰ و مجنوں کی 
ایسی صورت حال کی اپنی ان دونوں کو حیرت ہے 
خاک سے آدم کر کے اٹھایا جس کو دست قدرت نے 
قدر نہیں کچھ اس بندے کی یہ بھی خدا کی قدرت ہے 
صبح سے آنسو نومیدانہ جیسے وداعی آتا تھا 
آج کسو خواہش کی شاید دل سے ہمارے رخصت ہے 
کیا دل کش ہے بزم جہاں کی جاتے یاں سے جسے دیکھو 
وہ غم دیدہ رنج کشیدہ آہ سراپا حسرت ہے 
جب کچھ اپنے کنے رکھتے تھے تب بھی صرف تھا لڑکوں کا 
اب جو فقیر ہوئے پھرتے ہیں میرؔ انہیں کی دولت ہے

میر تقی میر 

Comments