حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے
حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے
سلام کے لیے حاضر غلام ہو جائے
میں صرف دیکھ لوں اک بار صبحِ طیبہ کو
بلا سے پھر مری دنیا میں شام ہو جائے
تجلیات سےبھر لوں میں کاسئہ دل و جاں
کبھی جو اُن کی گلی میں قیام ہو جائے
حضور آپ جو سن لیں تو بات بن جائے
حضور آپ جو کہہ دیں تو کام ہو جائے
حضور آپ جو چاہیں تو کچھ نہیں مشکل
سمٹ کےفاصلہ یہ چند گام ہو جائے
ملے مجھےبھی زباں بوصیری و جامی
مرا کلام بھی مقبولِ عام ہو جائے
مزا تو جب ہےفرشتے یہ قبر میں کہہ دیں
صبیح! مدحتِ خیر الانام ہو جائے
(صبیح رحمانی)
Comments
Post a Comment