یوں نہیں کرب کے اظہار کو ہو سکتا ہے

یوں نہیں کرب کے اظہار کو ہو سکتا ہے
غم کا احساس عزادار کو ہو سکتا  ہے
ایک دیوار کِسی گھر کی اگر خستہ ہو 
 اسکا دُکھ دوسری دیوار کو ہو سکتا ہے
پُھول بھی دوست شفا بخش بہت ہوتے ہیں 
فائدہ اِن سے بھی بیمار کو ہو  سکتا ہے
دُور سے چومنا چھوڑو کہ میاں اِس سے کوئی
مسئلہ بھی لب و رُخسار کو ہو سکتا  ہے
سر جھٹکتے ہوئے لوگوں کو یہ احساس نہیں
اِس سے نقصان  بھی دستار کو ہو سکتا ہے
دھڑکنیں چلتی ہیں کس تال میں معلوم نہیں
علم اِسکا کسی لے کار کو ہو سکتا  ہے
میں محبت میں وفادار سہی پھر بھی جناب
مُجھ پہ شک میرے مدد گار کو ہو سکتا  ہے
اعجاز توکّل

Comments