جو نقد جاں تھا وہی درد سر ہے، کیا کہیے

جو نقدٍ جاں تھا وہی دردِ سر ہے، کیا کہیے
 ہمیں نہیں تھی شکایت، مگر ہے، کیا کہیے
فضول قصے یہی سوچ کر سنے اس کے
 کہ دو ہی لوگ ہیں، لمبا سفر ہے، کیا کہیے
اگرچہ دل بھی ہے ویران اور مسجد بھی 
 یہ جاۓ مسندِ ربی، وہ گھر ہے، کیا کہیے
کوٸ ہمیں جو کہے بے زبان، کیوں سنیے
 اِدھر کی بات پہنچتی اُدھر ہے، کیا کہیے
پرندگاں کی حمایت میں سو دلیلیں ہیں
 مگر ہمارا مخاطب شجر ہے، کیا کہیے
یہ سوچ کر بھی مجھے لوگ کچھ نہیں کہتے
 بہت بُرا ہے مگر بے ضرر ہے، کیا کہیے
افضل خان

Comments