اب کہاں رسم ہے لٹانے کی

اب کہاں رسم ہے لٹانے کی 
برکتیں تھیں شراب خانے کی

کون ہے جس سے گفتگو کیجے
جان دینے کی، دل لگانےکی

بات چھیڑی تو اُٹھ گئی محفل
اُن سے جو بات تھی بتانے کی

ساز اٹھایا تو تھم گیا غمِ دل
رہ گئی آرزو سنانے کی

چاند پھر آج بھی نہیں نکلا
کتنی حسرت تھی اُن کے آنے کی

اس طرح آج ان کو یاد کیا
آنکھ بھر آئی اِک زمانے کی

(فیض احمد فیضؔ)
غیر مطبوعہ 

Comments