نظر نظر میں وہ نور یقیں تھے تب بھی

نظر نظر میں وہ نورِ یقیں تھے تب بھی
وہ جب رسولِ خفی تھے امیں تھے تب بھی



 اگرچہ قبلِ رسالت بس اِک بشر تھے وہ
قبیلے بھر میں مگر بہترین تھے تب بھی
جب ان کا شہر بھرا تھا کئی خداؤں سے
عقائد اُن کے بہت دلنشیں تھے تب بھی
نہ جانتا تھا کوئی تب بھی کائنات کے راز
خدائے پاک کے وہ ہمنشیں تھے تب بھی
جب آسماں پہ سورج نہ چاند تارے تھے
حضور جلوہ فگن ہر زمین تھے تب بھی
کسی کو حسن کے معنی بھی جب نہ آتے تھے
وہ اپنی ذات کے اندر حسیں تھے تب بھی
قتیل دل نے دھڑکنا بھی جب نہ سیکھا تھا
وہ میرے خانہ دل میں مکیں تھے تب بھی
قتیل شفائی

Comments