نہیں ایسا کسی روبوٹ کے ہیں

نہیں ایسا کسی روبوٹ کے ہیں
بٹن ٹوٹے ہمارے کوٹ کے  ہیں
کسی کو دیکھنا خوشبو لگانا
 مُحبت کے گھریلو ٹوٹکے ہیں
ہمیں منظر پہ مت لاؤ عزیزم 
 کہ ہم تو آدمی ہی اوٹ کے ہیں
بہت گھمبیر احبابِ گرامی 
 سیاست میں مسائل ووٹ کے ہیں
مُحبت ہم پہ بھی اب مہرباں ہو 
 کہ ہم بھی منتظر اِس چوٹ کے ہیں
کہ ہم بازار کیسے جا سکیں گے 
 ہماری جیب میں ہی دو ٹکے ہیں
یہ عقدہ تُم پہ کیوں کھولیں کہ نزدیک
میاں ہم اصل کے یا کھوٹ کے  ہیں
نہیں لیتے گداگر ریز گاری 
 کہ حامی اب یہ سو کے نوٹ کے ہیں
طبعیت صرف بادامی ہے اپنی 
 کہ رسیا دوست ہم اخروٹ کے ہیں
انہیں ساحر ملا ہے شاعری میں 
مقدر والے یوں ڈجکوٹ کے  ہیں
اعجاز توکّل

Comments