حالانکہ اس کی سمت اشارہ نہيں مرا

حالانکہ اس کی سمت اشارہ نہيں مرا 
 لیکن بغیر اس کے گزارا نہيں مرا
اس خوش بدن پہ اور بھی لوگوں کی آنکھ ہے 
 اس بےوفا پہ صرف اجارہ نہيں مرا
دل لگ نہيں رہا ہے اکیلے میں ان دنوں 
 دنیا کو بھی سکون گوارا نہيں مرا
لازم نہيں کہ سب کو چمکتا دکھائی دوں 
 اوج ِ فلک پہ میں ہوں ستارہ نہيں مرا
اہلِ ہوس کی آنکھ میں چبھتا ہوں اس لیے 
 جو فائدہ ہے ان کا خسارہ نہيں مرا
اس میں بھی کوئی خیر کا پہلو ضرور ہے 
 صدقہ اگر کسی نے اتارا نہيں مرا
جانے میں کون دشت میں کس وقت جا گِروں 
 آبِ رواں ہوں کوئی کنارہ نہيں مرا
کہتے تھے لوگ عشق بڑا پیر ہے مگر 
 اس نے بھی کوئی کام سنوارا نہيں مرا
عمران عامی

Comments