شب کے تہہ خانے میں اترا اور اندر رہ گیا
شب کے تہہ خانے میں اُترا اور اندر رہ گیا
خواب کیا دیکھا کہ مَیں بھی خواب ہو کر رہ گیا
چھینا جھپٹی جانے کتنی دیر تک جاری رہی
دستِ بینائی میں ٹُوٹا پُھوٹا منظر رہ گیا
عکس کی بوندیں گریں پھر تیرگی کے کھیت پر
آئنہ سرسبز ہوتے ہوتے بنجر رہ گیا
چیخ اٹھنے کے بجائے مَیں نے یوں دیکھا انہیں
زخم شرمندہ ہوا اور درد ششدر رہ گیا
کون دروازوں کو توڑے اور نکالے اب ہمیں!
تُو مرے گھر رہ گیا اور مَیں ترے گھر رہ گیا
مَیں چٹخ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا خود ہی کہیں
ہجر کی مٹھی میں اُس کے غم کا پتھر رہ گیا
اب کوئی ناؤ، کوئی طوفان کا گھاؤ نہیں
ساحلوں کے حافظے میں بس سمندر رہ گیا
سعید شارق
Comments
Post a Comment