یار جو کچھ بھی ہے قصہ مختصر دل نہیں لگ رہا

یار جو کچھ بھی ہے! قِصّہ ء مختصر دل نہیں لگ رہا
 تیرے بِن کوششیں تو بہت کِیں مگر دل نہیں لگ رہا
جی میں آتا ہے اُونچی پہاڑی پہ چڑھ کر کسی روز مَیں 
 لوگ اِکٹٌھے کروں اور کہوں چِیخ کر دل نہیں لگ رہا
کال تم ہی کرو گی مجھے ٹھیک ہے، طے ہوا تھا، مگر
 تم بتاؤ مجھے کیا کروں مَیں اگر دِل نہیں لگ رہا
یہ سنا تھا کسی سے کہ سیر و سیاحت ہے اِس کا علاج
 کر چکا ہوں مَیں کِتنے سفر پر سفر، دل نہیں لگ رہا
یہ وہی شہر ہے مَیں مہینوں جہاں سے پلٹتا نہ تھا
 اب یہاں ایک دن بھی رکوں، اِس قدر دل نہیں لگ رہا
کھڑکیوں سے در آتی ہوئی وحشتیں، روزنوں سے گھٹن
 کاٹ کھانے کو آتے ہیں دِیوار و دَر دل نہیں لگ رہا
ایک سگریٹ سے سگریٹ جلاتے ہوئے دِن گزارا گیا
 بالکونی میں ساحر اِدھر سے اُدھر، دل نہیں لگ رہا
جہانزیب ساحر

Comments