صحن کو چمکا گئی بیلوں کو گیلا کر گئی

صحن کو چمکا گئی، بیلوں کو گیلا کر گئی
رات بارش کی فلک کو اور نیلا کر گئی

دھوپ ہے اور زرد پھولوں کے شجر ہر راہ پر
اک ضیائے زہر سب سڑکوں کو پیلا کر گئی

کچھ تو اس کے اپنے دل کا درد بھی شامل ہی تھا
کچھ نشے کی لہر بھی اس کو سریلا کر گئی

بیٹھ کر میں لکھ گیا ہوں زخمِ دل کا ماجرا
خون کی اک بوند کاغذ کو رنگیلا کر گئی
منیر نیازی 

Comments