وقت گزرا ہوا ملا ہے مجھے

وقت گزرا ہوا مِلا ہے مجھے
کوئی پہلے سے جانتا ہے مجھے

اپنے آغاز کی تلاش میں ہوں
اپنے انجام کا پتا ہے مجھے

بیٹھے بیٹھے، اِسی غبار کے ساتھ
اب تو اُڑنا بھی آگیا ہے مجھے

رات جو خواب دیکھتا ہوں میں
صبح وہ خواب دیکھتا ہے مجھے

کوئی اِتنے قریب سے گزرا
دُور تک دیکھنا پڑا ہے مجھے

پھول رکھے ہیں میز پر کس نے
اب یہ دفتر بھی دیکھنا ہے مجھے

ہونٹ ٹکرا رہے ہیں کشتی سے
کوئی پانی پِلا رہا ہے مجھے

یہ طلسمِ غمِ جہاں عادلؔ
ٹوٹتا ہے نہ توڑتا ہے مجھے
ذوالفقار عادل

Comments