تھکے ہارے قدیمی دشت سے لٹ کر گزرتے تھے

تھکے ہارے قدیمی دشت سے لٹ کر گزرتے تھے
مرے اندر سے زخمی قافلے اکثر گزرتے تھے
وہاں بچوں کی صورت دکھ جنم لیتے ہیں صدیوں سے
وہ جن آبادیوں سے رو کے پیغمبر گزرتے تھے
کئی صحرا ہمارے نقشٍ پا کو چوم کر پھیلے
کئی دریا ہماری آنکھ سے ہو کر گزرتے تھے
نہ جانے کیوں نکل آتا ہوں اس پر بے ارادہ میں
کبھی جس راستے سے باغیوں کے سر گزرتے تھے
بھٹکتی دستکوں کے کرب سے گرتے نہ تھے لیکن
کچھ انہونے مصائب سے مقفل در گزرتے تھے
جو تکتا کھڑکیوں سے گھر میں ہی پتھر کا ہو جاتا
گلی سے نت نئے حلیے میں جادو گر گزرتے تھے
راکب مختار

Comments