روضہ ہےمیرے سامنے گھر بھول گیاہوں

روضہ ہےمیرے سامنے گھر بھول گیاہوں
تھا دل پہ جو دنیا كا اثر بھول گیا ہوں

اے گنبدِ خضرا میں تری چھاٶں كے قرباں
رستے كا ہر اك سبز شجر بھول گیا ہوں

اك ایسا سكوں شہرِ مدینہ میں ملا ہے
میں سارا جہاں سارے نگر بھول گیا ہوں

اس ساعتِ خوش بخت كےدامن سےلپٹ كر
وارفتگیِ شام و سحر بھول گیا ہوں

دیكھی ہے جو آكر تیرے دربار كی عظمت
ہر حسن كا معیارِ نظر بھول گیا ہوں

امید كے ساحل پہ جو اُترا ہوں تو فیضؔی
دكھ درد كی موجوں كے بھنور بھول گیا ہوں

اسلم فیضی

Comments