کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے, ساحر لدھیانوی

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاؤں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی
عجب نہ تھا ____ کہ میں بے گانۂ الم ہو کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا
ترا گداز بدن ____ تیری نیم باز آنکھیں
اِنھیں حسین فسانوں میں محو ہو رہتا
پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی
ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر _____ اور میں
گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا
مگر یہ ہو نہ سکا
مگر یہ ہو نہ سکا ____ اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں ____ ترا غم _____ تری جستجو بھی نہیں
گزر رہی ہے کچھ اِس طرح زندگی جیسے
اِسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں
زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں گلے
گزر رہا ہوں کچھ انجانی رہ گزاروں سے
مہیب سائے مری سمت بڑھتے آتے ہیں
حیات و موت کے پرہول خارزاروں میں
نہ کوئی جادۂ ____ منزل ____ نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری
اِنہی خلاؤں میں رہ جاؤں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں مری ہم نفس ____ مگر یونہی
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
______________

ساحر لدھیانوی 

Comments