وہ عکس بن کے میری چشم ِ تر میں رہتا ہے, بسمل صابری


وہ عکس بن کے میری چشم ِ تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پَانی کے گھر میں رہتا ہے

پیام بر ہے وہی تو مری شب ِ غم کا
وہ اک ستارہ جو چشم ِ سحر میں رہتا ہے

کُھلی فضا کا پیامی ، ہوا کا باسی ہے
کہاں وہ حلقۂ ِ دیوار و دَر میں رہتا ہے

جو میرے ہُونٹوں پہ آئے تو گنگناؤں اسے
وہ شعر بن کے بیاض ِ نظر میں رہتا ہے

گذرتا وقت مرا غمگُسار کیا ہوا
یہ خود تعاقب ِ شام و سحر میں رہتا ہے

مرا ہی روپ ہے تو غور سے اگر دیکھے
بگُولہ سا جو تری رہگزر میں رہتا ہے

نہ جانے کون ہے جسکی تلاش میں بسمل
ہر ایک سانس مرا اب سفر میں رہتا ہے

Comments