دل لینے کو ضمانت چاہئے , داغ دہلوی


تم نے بدلے ہم سے گن گن کے لیے
ہم نے کیا چاہاتھا اس دن کے لیے

کچھ نرالا ہے جوانی کا بناؤ
شوخیاں زیور ہیں اس سن کے لیے

وصل میں تنگ آ کے وہ کہنے لگے
کیا یہ جوبن تھا اسی دن کے لیے

چاہنے والوں سے گر مطلب نہیں
آپ پھر پیدا ہوئے کن کے لیے

فیصلہ ہو آج میرا آپ کا
یہ اٹھا رکھا ہے کس دن کے لیے

دے مئے بے درد اے پیر مغاں
چاہیے اک پاک باطن کے لیے

دل کے لینے کو ضمانت چاہیے
اور اطمینان ضامن کے لیے

مے کشو مژدہ، اب آئی فصلِ گل
بلبلوں نے چونچ میں تنکے لیے

ہم نشینوں سے مرے کہتے ہیں وہ
چھوڑ دیں غیروں کو کیا ان کے لیے

ہیں رخِ نازک پہ گنتی کے نشاں
کس نے تیرے بوسے گن گن کے لیے

وہ نہیں سنتے ہماری کیا کریں
مانگتے ہیں ہم دعا جن کے لیے

آج کل میں داغؔ ہو گے کامیاب
کیوں مرے جاتے ہو دو دن کے لیے

Comments