گئے دنوں کا سراغ لیکر کہاں سے آیا کدھر گیا وہ , ناصر کاظمی

گئے دنوں کا سراغ لیکر کہاں سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ​

خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم، نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمہ جان، میرے تو دل میں اتر گیا وہ​

وہ میکدے کو جگانے والا، وہ رات کی نیند اڑانے والا
نہ جانے کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہیں گھر گیا وہ​

کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی، بدل چلا رنگ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ڈھل گئی ہے، جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ​

شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں، گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا، مثل گرد سفر گیا وہ​

بس اک منزل ہے بوالہوس کی، ہزار رستے ہیں اہل دل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں، گزر کیا میں ٹھہر گیا وہ​

وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تونے منزلوں کا
تیری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ​

وہ ہجر کی رات کا ستارا، وہ ہمنفس ہمسخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا، سنا ہے کل رات مر گیا وہ​

بس ایک موتی سی چھب دیکھا کر، بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر
ستارا شام بن کے آیا، برنگ خواب سحر گیا وہ​

نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا، نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یونہی ذرا سی کسک ہے دل میں، جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ​

وہ رات کا بے نوا مسافر، وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا، پھر نہ جانے کدھر گیا وہ​

ناصر کاظمی 

Comments