ذرا سی دیر میں ہم کیسے کھولتے اُس کو , محسن نقوی

ذرا سی دیر میں ہم کیسے کھولتے اُس کو 
تمام عمر لگی جھوٹ بولتے اس کو
جسے کشید کیا تھا خمارِ خوشبو سے 
مثالِ رنگ ہواوٓں میں گھولتے اُس کو
وہ خواب میں ہی اترتا شعاعِ صبح کے ساتھ 
ہم اپنے آپ ہی پلکوں پہ تولتے اُس کو
وہ اشک تھا تو اُسے آنکھوں میں دفن ہونا تھا 
گہر نہ تھا کہ ستاروں میں رولتے اُس کو
وہ بے وفا تھا تو اقرار لازمی کرتا 
کچھ اور دیر میری جاں ٹٹولتے اس کو
کسی کی آنکھ سے محسؔن ضرور پیتا ہے 
تمام شہر نے دیکھا ہے ڈولتے اُس کو
محسن نقوی

Comments