متفرق کلاسیکی اشعار

آ پیا ان نینن میں جو پلک ڈھانپ توہے لوں
نہ میں دیکھوں غیر کو نہ توہے دیکھن دوں 

حضرت امیر خسرو

تو بھی آغوش تصور سے جدا ہوتا نہیں
اے صنم، جس طرح دور اک دم خدا ہوتا نہیں

امام بخش ناسخؔ

جی چاہتا ھے پھر کوئی تجھ سے کروں سوال
تیری نہیں نہیں نے________غضب کا مزا دیا

جلیلؔ مانک پوری

مل گئیں آپس میں دو نظریں اک عالم ہو گیا
جو کہ ہونا تھا سو کچھ انکھیوں میں باہم ہو گیا
آبرو شاہ مبارک

مرے تن سے سر کو جدا کر اب نہیں خوں بہا کی مجھے طلب

کہ یہ تن یہ بار گراں ہے بس کہیں تیغ لے کے ستم گر آ 

شاہ نصیرؔ

عارض وہ پھول سے کہ تصدق بہار ہے
وہ کمسنی کہ جس پہ جوانی نثار ہے

مرزا سلامت علی دبیر

اگر دیکھے تمہاری زلف لے ڈس
الٹ جاوے کلیجا ناگنی کا

آبرو شاہ مبارک

عزیز اگر نہیں رکھتا نہ رکھ ذلیل ہی رکھ 
مگر نکال نہ تو اپنی انجمن سے مجھے 

وحشت رضا کلکتوی

عشق سے تو نہیں ہوں میں واقف 
دل کو شعلہ سا کچھ لپٹتا ہے 

محمد رفیع سوداؔ

عرش تک جاتی تھی اب لب تک بھی آ سکتی نہیں
رحم آ جاتا ہے کیوں اب مجھ کو اپنی آہ پر 

بیاں احسن اللہ خاں

میری ہر بات کو الٹا وہ سمجھ لیتے ہیں
اب کے پوچھا تو یہ کہہ دوں گا کہ حال اچھا ہے

جلیل مانک پوری


اٹھا دردِ جگر کس کے بٹھانے کو خدا جانے
خبر دیتی ہے بیتابی مرے دل میں کوئی آیا
ضامن جلال

پلکیں وے اس کی پھری جی میں کھبی جاتی ہیں 
آنکھ وہ دیکھے کوئ شوخی میں کیا پیاری ہے

میر تقی میر

سُرج کو بوجھتا ہوں صبح کے تاراں سوں بھی کمتر
نظر میں میری جب وہ یار مہ رخسار آتا ہے

ولی دکنی

مجھ دل جلے کی نبض جو دیکھی طبیب نے
کہنے لگا کہ آہ !    مرا ہاتھ جل گیا

امانت لکھنؤی

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل 
جب آنکھ ہی سے نا ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

مرزا غالبؔ

کِس واسطے اے شمع! زباں کاٹتے ھیں لوگ
کیا توُ نے بھی کی تھی شبِ ھجراں کی شکایت
مومن خاں مومن

Comments