کیا جانیے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا

کیا جانیے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا
گر شام کا بھولا ہے تو گھر کیوں نہیں جاتا
ہم کو نہیں معلوم کہ اجڑے ہوئے دل سے
آوارہ مزاجی کا اثر کیوں نہیں  جاتا
صدیوں سے تجھے تکتے ہوئے سوچ رہا ہوں
جی تیرے خدوخال سے بھر کیوں نہیں جاتا
آنکھوں سے اداسی کی گھٹا کیوں نہیں چھٹتی
سینے سے محبت کا  بھنور کیوں نہیں جاتا
ٹھہرا ہے جو اک قافلہ غم میرے دل میں
اس چھوٹی سی بستی سے گزر کیوں نہیں جاتا
سانسوں سے میرے لرزش غم کیوں نہیں جاتی
پیروں سے میرے زخم  سفر کیوں نہیں جاتا
فرحت عباس شاہ

Comments