اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا

اے محبت تِرے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج تِرے نام پہ رونا آیا
یوں تو ہر شام اُمیدوں میں گزر جاتی تھی
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا

کبھی تقدیر کا ماتم، کبھی دنیا کا گِلہ
منزلِ عشق میں ہر گام پہ رونا آیا
جو مجھے تٗو نے دیا مِرے ہاتھوں سے گرا
ساقیا! مجھ کو اسی جام پہ رونا آیا
مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلہ نوحہ گری
اس قدر گردش ایام پہ رونا آیا
جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ
مجھ کو اپنے دلِ ناکام پہ رونا آیا

شکیل بدایونی

Comments