وہ ہم تھے، اور وہاں پر چراغ تھے بھی نہیں

وہ ہم تھے، اور وہاں پر چراغ تھے بھی نہیں
ملیں گے آپ کو ہم ایسے دِ ل جلے بھی نہیں
وہ کس مہک پہ لہکنے لگا ہے کچھ دن سے
ابھی ہماری محبت کے گُل کھِلے بھی نہیں
بجا ہے ہم گئے گزرے ضرور ہیں لیکن
تری نظر سے گریں اس قدر بُرے بھی نہیں
میں روز کتنے ستاروں کو ٹانکتا ہوں وہاں
یہ آسمان ترا اسقدر پَرے بھی نہیں
سرک رہے ہیں تہہِ دِل سے آپ بھی لیکن
اب اِس مکان میں پہلے سے زلزلے بھی نہیں
ادریس آزاد

Comments