اتباف ابرک ، نعت

اپنے اندر جو ہیں شیطان یہ پالے میں نے
اے مرے رب تو ذرا ان کو تو غارت کر دے

حق و باطل میں نظر فرق مجھے صاف آئے
نیک بس راہ چلوں ایسی تو فطرت کر دے

میں جو شک کرتا ہوں لوگوں پہ یوں لمحہ لمحہ
خوش گمانی کو مرے رب مری عادت کر دے

دین دنیا سے جدا کر کے میں شرمندہ ہوں
ان میں قربت جو ہے لازم ، وہی قربت کر دے
مجھے بھٹکانے کو کرتا ہے جو حیلے شیطاں
کارگر مجھ پہ وہ ہوں، اُُس کی یہ حسرت کر دے

ہم جو کمزور ہوئے فرقوں میں یوں بٹ بٹ کر
سارے فرقوں کو ملا، ایک ہی ملت کر دے

روزِ محشر ہو مجھے قرب محمد ﷺ کا نصیب
میری ہر سانس کو بس ان کی ہی سنت کر دے

اور ابرک کو نظر آئے نہ کچھ تیرے سوا
اس محبت میں مرے رب تو یہ شدت کر دے

اتباف ابرک
کا اصل نام آفتاب اکبر

Comments