اس بھری محفل میں اپنا مدعا کیسے کہیں

اِس بھری محفل میں اپنا مُدّعا کیسے کہیں
اتنی نازک بات اُن سے برملا کیسے کہیں

اُن کی بےگانہ روی کا رنج ہے ہم کو مگر
اُن کو ، خود اپنی زباں سے بے وفا کیسے کہیں

وہ خفا ہیں ہم سے شاید بر بِنائے احتیاط
اُن کی مجبوری کو بے سمجھے ، جفا کیسے کہیں

اہلِ دل تو لے اُڑیں گے اِس ذرا سی بات کو !
اُن کے اندازِ حیا پر مرحبا کیسے کہیں

خود ہماری ذات سے کیا فیض پہنچا ہے اُنھیں
دوستوں کی بے رُخی کو نار وا کیسے کہیں

جس قدر وہ باخبر ہے ہم سے کوئی بھی نہیں
اپنے دشمن کو بَھلا ، نا آشنا کیسے کہیں

اُن کو جب خود ہی نہ ہو اقبال اپنوں کا خیال
بے حیا بن کر! کہو ہم ، مدّعا کیسے کہیں

اقبال عظیم

Comments