کوئی دل تو نہیں ہے کہ ٹھہر جائے گا

کوئی دل تو نہیں ہے کہ ٹھہر جائے گا 
وقت اک خواب رواں ہے سو گزر جائے گا
ہر گزرتے ہوئے لمحے سے یہی خوف رہا 
حسرتوں سے مرے دامن کو یہ بھر جائے گا
شدت غم سے ملا زیست کو مفہوم نیا 
ہم سمجھتے تھے کہ دل جینے سے بھر جائے گا
چند لمحوں کی رفاقت ہی غنیمت ہے کہ پھر 
چند لمحوں میں یہ شیرازہ بکھر جائے گا
اپنی یادوں کو سمیٹیں گے بچھڑنے والے 
کسے معلوم ہے پھر کون کدھر جائے گا
یادیں رہ جائیں گی اور یادیں بھی ایسی جن کا 
زہر آنکھوں سے رگ و پے میں اتر جائے گا

مشفق خواجہ

Comments