یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا

یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا
تِرے سلوک، تِری آگہی کی عمر دراز
مِرے عزیز! مِرا زخم بھرنے والا تھا

بلندیوں کا نشہ ٹوٹ کر بکھرنے لگا
مِرا جہاز زمیں پر اترنے والا تھا
مِرا نصیب، مِرے ہاتھ کٹ گئے، ورنہ
میں تیری مانگ میں سِندور بھرنے والا تھا
مِرے چراغ، مِری شب، مِری منڈیریں ہیں
میں کب شریر ہواؤں سے ڈرنے والا تھا

راحت اندوری

Comments