دن کٹ رہے ہیں کش مکش روزگار میں

دن کٹ رہے ہیں کش مکشِ روزگار میں
دم گھُٹ رہا ہے سایہ ابرِ بہار میں
آتی ہے اپنے جسم کے جلنے کی بُو مجھے
لُٹتے ہیں نکہتوں کے سبُو جب بہار میں
گزرا ادھر سے جب کوئی جھونکا تو چونک کر
دل نے کہا: "یہ آ گئے ہم کس دیار میں"
اے کنجِ عافیت تجھے پا کر پتہ چلا
کیا ہمہمے تھے گردِ سرِ رہگذار میں
میں ایک پل کے رنجِ فراواں میں کھو گیا
مر جھا گئے زمانے مرے انتظار میں

مجید امجد

Comments