تیری نگہ سے تجھ کو خبر ہے کہ کیا ہوا

تیری نگہ سے تجھ کو خبر ہے کہ کیا ہوا

دل زندگی سے بار دگر آشنا ہوا

اک اک قدم پہ اس کے ہوا سجدہ ریز میں

گزرا تھا جس جہاں کو کبھی روندتا ہوا

دیکھا تجھے تو آرزوؤں کا ہجوم تھا

پایا تجھے تو کچھ نہ تھا باقی رہا ہوا

دشت جنوں میں ریگ رواں سے خبر ملی

پھرتا رہا ہے تو بھی مجھے ڈھونڈھتا ہوا

احساس نو نے زیست کا نقشہ بدل دیا

محرومیوں کا یوں تو چمن ہے کھلا ہوا

چمکا ہے بن کے سرو چراغاں تمام عمر

کیا آنسوؤں کا تار تھا تجھ سے بندھا ہوا

بکھرے ہیں زندگی کے کچھ اس طرح تار و پود

ہر ذرہ اپنے آپ میں محشر نما ہوا

پوچھو تو ایک ایک ہے تنہا سلگ رہا

دیکھو تو شہر شہر ہے میلہ لگا ہوا

پردہ اٹھا سکو تو جگر تک گداز ہے

چاہو کہ خود ہو یوں تو ہے پتھر پڑا ہوا

انسان دوستی کے تقاضوں کا سلسلہ

انسان دشمنی کی حدوں سے ملا ہوا

اقدار کے فریب میں اب آ چکا نظرؔ

کشتی ڈبو گیا جو خدا، ناخدا ہوا

قیوم نظر

Comments