بخش دینے کے سو بہانے ہیں​

میری بدخوئی کے بہانے ہیں​
رنگ کچھ اور اُن کو لانے ہیں​

رحم اے اضطراب رحم کہ آج​
اُن کو زخمِ جگر دکھانے ہیں​

کیسی نیند اور پاسباں کس کا​
یاں نہ آنے کے سب بہانے ہیں​

کر کے ایفائے عہد کا مذکور​
اپنے احساں اُنہیں جتانے ہیں​

اُس کی شوخی کی ہے کوئی حد بھی​
اک نہ آنے کے سَو بہانے ہیں​

سر اُٹھانا وبال ہے اور یاں​
ناز اُن کے ابھی اُٹھانے ہیں​

ظلم سے اُن کا پیٹ بھرنے تک​
ہم کو تیغ و تیر ہی کھانے ہیں​

ان بتوں ہی کو حُسن دینا تھا​
کیا خدائی کے کارخانے ہیں​

الم و درد و رنج و بیتابی​
یار اپنے یہی پُرانے ہیں​

کیا ہماری نماز، کیا روزہ​
بخش دینے کے سو بہانے ہیں​

میں کروں جستجو کہاں جا کر​
اُن کے تو سو جگہ ٹھکانے ہیں​

قافیے کو بدل کے اے مجروح ​
اور اشعار کچھ سُنانے ہیں​

میر مہدی مجروح

Comments