کا سے سے مرے تیری نظر کتنی دور ہے

کا سے سے مرے تیری نظر کتنی دور ہے
سب کچھ ہے آس پاس مگر کتنی دور ہے
میں مانتا ہوں تُو ہے رگِ جاں سے بھی قریب
لیکن مِری دعا سے اثر کتنی دور ہے
اک عمر ہوگئی ہے مجھے دہلیزِ وقت پر
ہر لمحہ سوچتا ہوں گھر کتنی دور ہے
میں جوئے بارِ نغمہ سرا باغ ہوں مگر
مجھ سے سماعتِ گلِ تر کتنی دور ہے
مشقِ سخن سے بھی مجھے معلوم کب ہوا
نوکِ قلم سے مصرعِ تر کتنی دور ہے
ہم لوگ کس قدر ہیں پریشان دیکھ لے
سورج سے پوچھتے ہیں سحر کتنی دور ہے

لیاقت علی عاصم

Comments