میں جس ارادے سے جا رہی ہوں ، اسی ارادے سے لڑ پڑوں گی

میں جس ارادے سے جا رہی ہوں ، اسی ارادے سے لڑ پڑوں گی
مرے سپاہی کو کچھ ہوا تو میں شاہزادے سے لڑ پڑوں گی
یہ کھیل شاہوں کے مرتبے کا ہدف بنیں گے ہمارے مہرے
میں بے بسی میں شکست کھائے ہوئے پیادے سے لڑ پڑوں گی
میں اپنی بستی کی کچی گلیوں سے عشق کرتی ہوں، یاد رکھنا
اگر جو اچھا برا کہے گا امیرذادے سے لڑ پڑوں گی
اسیر- نقش و نگار مجھ سے نہیں سنبھلتا یہ چاک- ہستی
میں تھک گئی تو بکھرتی مٹی سے اور برادے سے لڑپڑوں گی
یہ صبر کب تک نبھائے جاوں میں خود سے نظریں چرائے جاوں
جو شام- ہجراں نے جان کھائی ہر ایک وعدے سے لڑ پڑوں گی
کومل جوئیہ

Comments