اتار لفظوں کا اک ذخیرہ غزل کو تازہ خیال دے دے

اتار لفظوں کا اک ذخیرہ غزل کو تازہ خیال دے دے
خود اپنی شہرت پہ رشک آئے سخن میں ایسا کمال دے دے
ستارے تسخیر کرنے والا پڑوسیوں سے بھی بے خبر ہے
اگر یہی ہے عروج آدم تو پھر ہمیں تو زوال دے دے
تری طرف سے جواب آئے نہ آئے پروا نہیں ہے اس کی
یہی بہت ہے کہ ہم کو یا رب تو صرف اذن سوال دے دے
ہماری آنکھوں سے اشک ٹپکیں لبوں پہ مسکان دوڑتی ہو
جو ہم نے پہلے کبھی نہ پایا تو اب کے ایسا ملال دے دے
کبھی تمہارے قریب رہ کر بھی دوریوں کے عذاب جھیلیں
کبھی کبھی یہ تمہاری فرقت بھی ہم کو لطف وصال دے دے
تیمور حسن تیمور

Comments