کچھ دل پہ زخم آئے ہیں مر تو نہیں گئے

کچھ دل پہ زخم آئے ہیں مر تو نہیں گئے
ہم قاتلوں کے نام سے ڈر تو نہیں گئے

آئی ہے کیوں چمن میں خزاں باز پر س کو
پھول اپنی خوشبوؤں سے مکر تو نہیں گئے

نکلے تھے صبح گھر سےجو اپنی تلاش میں
پھر لوٹ کر وہ شام کو گھر تو نہیں گئے

رسوائیوں میں اور اضافہ یہ کیوں ہوا
ہم اس گلی میں بارِ دگر تو نہیں گئے

قاتل کو زعم ہے نہیں باقی کوئی ثبوت
دریا ہمارے خون کے اتر تو نہیں گئے

اعزاز پانے والے ذرا یہ بھی سوچتے
دستار کے عوض کہیں سر تو نہیں گئے

تو لے رہا ہے جھینپ کے جن دوستوں کا نام
تجھ سے دغا قتیل وہ کر تو نہیں گئے

قتیل شفائی

Comments