جس کو دیکھ کے شاعر تم للچاۓ بہت

جس کو دیکھ کے شاعر تم للچاۓ بہت
اس میں بھی تھی روشنی کم اور ساۓ بہت
آئینے کا سحر ہے یا اندازِ نظر
اپنا عکس ہی اپنے روپ دکھاۓ بہت

کل جو چہرہ نظر نظر کا محور تھا
آج وہ چہرہ دیکھ کے جی بھر آۓ بہت
جوڑے میں جو پھول تھا کل اب گود میں ہے
دیکھ کے اس کو بیتے دن یاد آۓ بہت
تجھ سے تھا پیمانِ وفا، سو قائم ہے
پھول سے لوگوں نے پتھر برساۓ بہت
چہرے کی خاموش لکیریں کہتی ہیں
شرط سخن ہے، کہنے کا پیراۓ بہت
ہونٹوں پر اک زخمِ تبسم آج بھی ہے
جسموں کی تکفین نے راز چھپاۓ بہت
بہرے جذبے روح کی چیخیں کیا سنتے
ٹھنڈی پٹڑی ریل تلے چلاۓ بہت
حبس سہی، کمرے میں رہو تو اچھا ہے
باہر تازہ ہوا تو دھول اڑاۓ بہت
اپنے وطن میں وہ سچا ہے، جو یارو
سچائ کو جھوٹے منہ بہلاۓ بہت
شاعرؔ اپنے گھر کا خدا ہی حافظ ہے
اس گھر کو ہیں گھیرے ہوۓ ہمساۓ بہت

حمایت علی شاعر

Comments