لفظ بند قبا ، قبا پر اشعار

بندِ قبا سے متعلق اشعار

ہم بھی کچھ اپنے دل کی گرہ کھولنے کو ہیں
کس کس کا آج دیکھیے بند قبا کھلے
کلیم عاجز

جتنا ہوا سے بندِ قبا کھل گیا ترا
ہم لوگ اس قدر بھی کسی سے کہاں کھلے
محسن نقوی

۔ " کھُلنے کے باوجود وہ مجھ پر نہ کھُل سکا
بندِ قبا کے بعد بھی گِرہیں بہت سی تھیں
نعیم بازید پوری

صرف مانع تھی حیا بندِ قبا کھلنے تلک
پھر تو وہ جانِ حیا ۔۔۔۔ ایسا کھلا ایسا کھلا
رسا چغتائی

اتنی نہ بڑھا پاکیٔ_داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند_قبا دیکھ
مصطفیٰ خاں شیفتہ

دیکھیں تو کار بستہ کی کب تک کھلے گرہ
دل بستگی ہے یار کے بند قبا کے ساتھ
میر تقی میر

پریمؔ آخر صبح نو کھولے گی کب بند قبا
جھانکتا ہے چلمنوں سے آفتابوں کا بدن
پریم واربرٹنی

دل کی ہماری غرض باندھے ہے کیا بند بند
شوخ کا وہ کھول کر بند قبا بیٹھنا
نظیر اکبرآبادی

کیا کرتے ہیں کیا سنتے ہیں کیا دیکھتے ہیں ہاے
اس شوخ کے جب کھولتے ہیں بند قبا ہم
مصطفیٰ خاں شیفتہ

جامہ سے باہر اپنے جو ہوں میں عجب نہیں
کھولے ہیں کس کے بند قبا کچھ نہ پوچھئے
حیدر علی آتش

ہمارے عہد کی تہذیب میں قبا ہی نہیں
اگر قبا ہو تو بند قبا کی بات کریں
ساحر لدھیانوی

اس کے بند قبا کے جادو سے
سانپ سے انگلیوں میں چلنے لگے
امجد اسلام امجد

جب کہیں پھول مہکتے دیکھے
پھر ترا بند قبا یاد آیا
کرامت بخاری

کھول کر بند قبا گل کے ہوا
آج خوشبو کو رہا کرتی ہے
پروین شاکر

بند قبا کو خوباں جس وقت وا کریں گے
خمیازہ کش جو ہوں گے ملنے کے کیا کریں گے
میر تقی میر

پھولوں میں خوشبوؤں میں ستاروں میں چاند میں
کھولے گا کوئی بند قبا جاگتے رہو
منصور عثمانی

کشاد دل پہ باندھی ہے کمر آج
نہیں ہے خیریت بند قبا کی
مومن خاں مومن

چاک کرتا ہوں اسی غم میں گریبان کفن
کون کھولے گا ترا بند قبا میرے بعد
منور خان غافل

نشۂ رنگ سے ہے واشد گل
مست کب بند قبا باندھتے ہیں
مرزا غالب

ہاتھوں میں دیر تک کوئی خوشبو بسی رہی
دروازۂ چمن تھا وہ بندِ قبا نہ تھا
امجد اسلام امجد

آنکھ جُھک جاتی ہے جب بندِ قبا کُھلتے ہیں
تجھ میں اُٹھتے ہوئے خورشید کی عریانی ہے
مصطفیٰ زیدی

چاک پیراہنیِ گُل کو صبا جانتی ہے
مستیِ شوق کہاں بندِ قبا جانتی ہے
احمد فراز

اسد اللہ خاں غالب
اسد بندِ قبائے یار ہے فردوس کا غنچہ
اگر وا ہو ، تو دکھلا دوں کہ یک عالم گلستاں ہے

خوشبو کی سرد لہر سے جلنے لگے جو زخم
پهولوں کو تیرا بندِقبا کهولنا پڑا
محسن نقوی

زندگی کچھ نہ تھی,جز بد حواسی
اک بندِ قبا جو ہم سے کھلا نئیں __!
جون ایلیاء

تھے چاک گریبان گلستاں میں گلوں کے
نکلا ہے مگر کھولے ہوئے بند قبا تو
میر تقی میر

قابو کا تمھارے بھی نہیں جوش جوانی
بے چھیڑے ہوئے ٹوٹتی ہے بند قبا آپ
ریاضؔ احمد خیرآبادی

گر بند قبا کھولے نہ جاتا وہ چمن میں
بلبل کا بھی چاک گریباں نہ کوتا
شاہ ترابؔ عـلی کاکـوروی

ہے وصل کی شب بند قبا کھولیے صاحب
پردہ تو اُٹھے سامنے سے شرم و حیا کا
مرزا عنایت علی بـیگ ماہؔ اکبـر آبادی

اللہ رے اضطراب سرور شب وصال
اُس گل کا اور بند قبا ہم سے وا نہ ہوا
سخـنؔ دہـلوی

بندِ قبا سے آگے بھی دیکھا ہے کل وہ حُسن
اب کیا کہیں کہ کیسا نظارا ہے ، میری جان
(سیّد کامران حیدرؔ)

ہمارے عہد کی تہذیب میں قبا ہی نہیں
اگر قبا ہو تو بند قبا کی بات کریں
ساحر لدھیانوی

Comments