حیرت بیان کی ہے تماشا نہیں لکھا

حیرت بیان کی ہے تماشا نہیں لکھا
جیسا وہ ہے ابھی اسے ویسا نہیں لکھا
اک خواب سا خیال اتارا ہے آنکھ سے
کاغذ پہ میں نے اس کا سراپا نہیں لکھا
جوبات دل کے پاس نہ آئی نہیں سنی
جو حرف درد سے نہیں گزرا نہیں لکھا
اس کی طلب ہے اس کے چراغوں سے کیا مجھے
افسردگی لکھی ہے اندھیرا نہیں لکھا
بے بس نہ تھا میں دید میں آئینے کی طرح
جب تک کہ اس کو چھوکے نہ دیکھا نہیں لکھا
اس کے لبوں کے نقش ابھارے ہیں ریت پر
ساحل پہ میری پیاس نے دریا نہیں لکھا
تعبیر کے خمار میں بے خامہ رہ گیا
یعنی وہ خواب میں نے دوبارہ نہیں لکھا
اک دوست کو رقیب کہا وہ بھی زیرِ لب
برسوں کی دوستی کا خسارا نہیں لکھا
لیاقت علی عاصم

Comments