برسوں کے رت جگوں کی تھکن کھا گئی مجھے

برسوں کے رت جگوں کی تھکن کھا گئی مجھے
سورج نکل رہا تھا کہ نیند آ گئی مجھے
رکھی نہ زندگی نے مری مفلسی کی شرم
چادر بنا کے راہ میں پھیلا گئی مجھے
میں بک گیا تھا بعد میں بے صرفہ جان کر
دنیا مری دکان پہ لوٹا گئی مجھے
دریا پہ ایک طنز سمجھئے کہ تشنگی
ساحل کی سرد ریت میں دفنا گئی مجھے
اے زندگی!!! تمام لہو رائگاں ہوا
کس دشتِ بے سواد میں برسا گئی مجھے
کاغذ کا چاند رکھ دیا دنیا نے ہاتھ میں
پہلے سفر کی رات ہی راس آ گئی مجھے
کیا چیز تھی کسی کی ادائے سپردگی
بھیگے بدن کی آگ میں نہلا گئی مجھے
قیصر قلم کی آگ کا احسان مند ہوں
جب انگلیاں جلیں تو غزل آ گئی مجھے
قیصر الجعفری

Comments