وا ذرا باغ کا دروازہ کرو صبح بخیر

وا ذرا باغ کا دروازہ کرو صبح بخیر
رنگ و بو سے سخنِ تازہ کرو صبح بخیر
سر کہیں بال کہیں، ہاتھ کہیں پاؤں کہیں
اپنے بکھراؤ کا اندازہ کرو صبح بخیر
زلف کو باندھ لو کاجل کو سمیٹو اٹھو
جمع سب رات کا شیرازہ کرو صبح بخیر
کتنے عالم ہیں ابھی منتظرِ کیفِ وصال
سب پہ ارزاں نفسِ تازہ کرو صبح بخیر
ڈوب جائے یہ کہیں نشّئہ شب میں پھر دن
یوں دریچے میں نہ خمیازہ کرو صبح بخیر

لیاقت علی عاصم

Comments