دریا دلی کہوں تری کیا ساقیا کہ بس

دریا دِلی کہوں تِری کیا ساقیا! کہ بس
پیمانہ اپنے مُنہ سے یہ خود بول اُٹھا کہ بس

ذکرِ شبِ الَم پہ کلیجہ پکڑ لِیا
کُچھ اور بھی سُنو گے مِرا ماجرا، کہ بس

اللہ جانے، غیر سے کیا گفتگو ہُوئی
اِتنا تو میں بھی آیا تھا سُنتا ہوا کہ بس

گو سنگ دِل وہ تھے، مگر آنسو نِکل پڑے
اِس بیکسی سے میرا جنازہ اُٹھا کہ بس

اچھّا تِری گلی سے میں جاتا ہُوں پاسباں !
کُچھ اور، کہنے سُننے کو باقی ہے یا کہ بس

شب بھر ترے مریض کا عالَم یہی رہا
نبضوں پہ جس نے ہاتھ رکھا، کہہ دیا کہ بس

دِن ہو کہ رات! رونے سے مطلب ہمَیں قمؔر
دِل دے کے اُن کو ایسا نتِیجہ مِلا کہ بس

قمؔر جلالوی

Comments