مزدوروں کا عالمی دن ، مزدور کی عظمت پر شاعری ، مزدوروں کے عالمی دن پر اشعار ، مزدور شاعری

تعمیر و ترقی والے ہیں کہیے بھی تو ان کو کیا کہیے
جو شیش محل میں بیٹھے ہوئے مزدور کی باتیں کرتے ہیں
عبید الرحمان
۔۔۔۔
آنے والے جانے والے ہر زمانے کے لیے
آدمی مزدور ہے راہیں بنانے کے لیے
حفیظ جالندھری
۔۔۔

لوگوں نے آرام کیا اور چھٹی پوری کی
یکم مئی کو بھی مزدوروں نے مزدوری کی
افضل خان
۔۔۔

مل مالک کے کتے بھی چربیلے ہیں
لیکن مزدوروں کے چہرے پیلے ہیں
تنویر سپرا
۔۔۔۔۔

کچل کچل کے نہ فٹ پاتھ کو چلو اتنا
یہاں پہ رات کو مزدور خواب دیکھتے ہیں
احمد سلمان
۔۔۔
اب تک مرے اعصاب پہ محنت ہے مسلط
اب تک مرے کانوں میں مشینوں کی صدا ہے
تنویر سپرا
۔۔۔۔

سو جاتا ہے فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتا
منور رانا

۔۔۔۔

تو قادر او عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
علامہ اقبال
۔۔۔

رہتا نہیں انسان تو مٹ جاتا ہے غم بھی
سو جائیں گے اک روز زمیں اوڑھ کے ہم بھی
احسان دانش
۔۔۔
اب ان کی خواب گاہوں میں کوئی آواز مت کرنا
بہت تھک ہار کر فٹ پاتھ پر مزدور سوئے ہیں
نفس انبالوی
۔۔۔۔
اس لیے سب سے الگ ہے مری خوشبو عامیؔ
مشک مزدور پسینے میں لیے پھرتا ہوں
عمران عامی
۔۔۔
خون مزدور کا ملتا جو نہ تعمیروں میں
نہ حویلی نہ محل اور نہ کوئی گھر ہوتا
حیدر علی جعفری
۔۔۔
میں اک مزدور ہوں روٹی کی خاطر بوجھ اٹھاتا ہوں
مری قسمت ہے بار حکمرانی پشت پر رکھنا
احتشام الحق صدیقی
۔۔۔۔

میں نے انورؔ اس لیے باندھی کلائی پر گھڑی
وقت پوچھیں گے کئی مزدور بھی رستے کے بیچ
انور مسعود

۔۔۔۔

زندگی اب اس قدر سفاک ہو جائے گی کیا
بھوک ہی مزدور کی خوراک ہو جائے گی کیا
رضا مورانوی
۔۔۔۔

بلاتے ہیں ہمیں محنت کشوں کے ہاتھ کے چھالے
چلو محتاج کے منہ میں نوالہ رکھ دیا جائے
رضا مورانوی
۔۔۔
دولت کا فلک توڑ کے عالم کی جبیں پر
مزدور کی قسمت کے ستارے نکل آئے
نشور واحدی
۔۔۔
دنیا میری زندگی کے دن کم کرتی جاتی ہے کیوں
خون پسینہ ایک کیا ہے یہ میری مزدوری ہے
منموہن تلخ
۔۔۔
ہونے دو چراغاں محلوں میں کیا ہم کو اگر دیوالی ہے
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم مزدور کی دنیا کالی ہے
جمیلؔ مظہری
۔۔۔
انہی حیرت زدہ آنکھوں سے دیکھے ہیں وہ آنسو بھی
جو اکثر دھوپ میں محنت کی پیشانی سے ڈھلتے ہیں
جمیلؔ مظہری
۔۔۔۔
میں کہ ایک محنت کش میں کہ تیرگی دشمن
صبح نو عبارت ہے میرے مسکرانے سے
مجروح سلطانپوری
۔۔۔
محنت کر کے ہم تو آخر بھوکے بھی سو جائیں گے
یا مولا تو برکت رکھنا بچوں کی گڑ دھانی میں
ولاس پنڈت مسافر

۔۔۔۔
پسینہ میری محنت کا مرے ماتھے پہ روشن تھا
چمک لعل و جواہر کی مری ٹھوکر پہ رکھی تھی
ناظر صدیقی
۔۔۔
پیڑ کے نیچے ذرا سی چھاؤں جو اس کو ملی
سو گیا مزدور تن پر بوریا اوڑھے ہوئے
شارب مورانوی
۔۔۔۔
پھوٹنے والی ہے مزدور کے ماتھے سے کرن
سرخ پرچم افق صبح پہ لہراتے ہیں
علی سردار جعفری
۔۔۔۔
سروں پہ اوڑھ کے مزدور دھوپ کی چادر
خود اپنے سر پہ اسے سائباں سمجھنے لگے
شارب مورانوی
۔۔۔
تری زمین پہ کرتا رہا ہوں مزدوری
ہے سوکھنے کو پسینہ معاوضہ ہے کہاں
عاصمؔ واسطی

Comments