سپردگی ، مصطفی زیدی

سپردگی
میں ترے راگ سے اس طرح بھرا ہوں جیسے
کوئی چھیڑے تو میں اک نغمۂ عرفاں بن جاؤں
ذہن ہر وقت ستاروں میں رہا کرتا ہے
کیا عجب میں بھی کوئی کرمکِ حیراں بن جاؤں
رازِ بستہ کو نشاناتِ خفی میں پڑھ لوں
واقفِ صورتِ ارواحِ بزرگاں بن جاؤں
دیکھنا اوجِ محبّت کہ زمیں کے اوپر
ایسے چلتا ہوں کہ چاہوں تو سلیماں بن جاؤں
میرے ہاتھوں میں دھڑکتی ہے شب و روز کی نبض
وقت کو روک کے تاریخ کا عنواں بن جاؤں
غم کا دعویٰ ہے کہ اس عالمِ سرشاری میں
جس قدر چاک ہو، اُتنا ہی گریباں بن جاؤں
تجھ کو اس شدّتِ احساس سے چاہا ہے کہ اب
ایک ہی بات ہے گلشن کہ بیاباں بن جاؤں
تُو کسی اور کی ہو کر بھی مرے دل میں رہے
میں اجڑ کر بھی ہم آہنگِ بہاراں بن جاؤں
(مصطفیٰ زیدی)​

Comments