سب مرا آبِ رواں کس کے اشاروں پہ بہے جاتا ھے

سب مرا آبِ رواں کس کے اشاروں پہ بہے جاتا ھے
اور اِک شہر مرا دونوں کناروں پہ بسے جاتا ھے
موج میں آتے ھی لگ جاتی ھے ھونٹھوں پہ بدن کی مٹّی
اور اِس ذائقہءغیر سے سب میرا مزہ جاتا ھے
اھلِ ایمان اُدھر آرائشِ مسجد میں لگے ھیں اور اِدھر
اپنا سامان اُٹھائے ھوئے مسجد سے خدا جاتا ھے
کوئی مجھ جیسا ھی روز آتا ھے آنکھوں میں لیے سبزہءدشت
اِک ھرا خط درودیوار کو دیتا ھے ، چلا جاتا ھے
چلتی ھے آئنے میں کتنے زمانوں کی ھوائے حیرت
ایک رنگ آتا ھے چہرے پہ تو اِک رنگ اُڑا جاتا ھے
میری اِک عمر اور اِک عہد کی تاریخ رقم ھے جس پر
کیسے روکوں کہ وہ آنسو مری آنکھوں سے گرا جاتا ھے
چاک کرنا ھی گریباں کو سکھایا ھے جنوں نے مجھ کو
مَیں نے سیکھا ھی نہیں کیسے گریباں کو سِیا جاتا ھے
فرحت احساس نے دیکھا ھے فلک پر کہیں اِک خِطّہءخواب
بیچ ڈالی ھے تمام ارضِ- بدن اُس نے ، سُنا جاتا ھے

فرحت احساس

Comments