سزا وہ دیجیئے جس کی کوئی مثال نہ ہو

زمیں کا ربط فلک سے اگر بحال نہ ہو
بدن میں سانس کا چلنا کوئی کمال نہ ہو
وہ جاتے جاتے جو امیدِ وصل دے جائے
یہ ہجر کاٹنا مجھ کو کبھی محال نہ ہو
کھلے بدن پہ لپیٹیں یہ سر نگوں شاخیں
شجر پہ بیٹھے پرندوں کا یہ مآل نہ ہو
میں لب ہلاؤں تو مصلوب کر دیے جاؤ
گئے دنوں کا مرے دل کو گر خیال نہ ہو
میں جانتا ہوں محبت سے دیکھتا ہے مجھے
میں سوچتا ہوں کہیں وقت کی یہ چال نہ ہو
کوئی تو بات ہو ایسی کہ چیر دے سینہ
کوئی تو زخم ہو ایسا کہ اندمال نہ ہو
بس ایک پل کے لیے اوڑھیئے بدن پہ یقیں
پھر اس کے بعد برہنہ گماں کی شال نہ ہو
یہ آبلے تو نہیں کچھ بھی عشق کا حاصل
سزا وہ دیجیئے جس کی کوئی مثال نہ ہو
زبانِ غیر سے خود کی خبر ملے ساجد
خدا کرے کہ محبت میں یوں بھی حال نہ ہو
ساجد محمود رانا

Comments