کہیں پر ہے ننشاں میرا نہ کوئی نام رکھتا ہوں

کہیں پر ہے نِشاں میرا نہ کوئی نام رکھتا ہوں
جو رکھتا ہوں تو اِک آغازِ بے انجام رکھتا ہوں

مری اِس سے زیادہ کامیابی اور کیا ہو گی
کہ مَیں سامان میں اپنے دلِ ناکام رکھتا ہوں

پرندہ سا کوئی مجھ میں بھی پھنستا پھڑپھڑاتا ہے
جو اپنے آپ میں پھیلا ہوا اِک دام رکھتا ہوں

نجانے کوون سے سانچے میں کب ڈھلنا پڑے مُجھ کو
اِسی خاطر ہمیشہ طبع اپنی خام رکھتا ہوں

مُجھے یہ آسماں ہے سر چھپانے کے لیے کافی
در و دیوار ہیں میرے نہ کوئی بام رکھتا ہوں




یہ کارِ عاشقی بھی آ پڑا ہے یُونہی رستے میں
وگرنہ مَیں تو اپنے کام سے کام رکھتا ہوں

مرے اوقات بھی سارے کے سارے ہو چکے اُس کے
کہ اپنی صبح رکھتا ہُوں نہ اپنی شام رکھتا ہُوں

مَیں خُود تو مُضطرب رہتا ہی آیا ہوں ہمیشہ سے
اُسے بھی آج کل تھوڑا سا بے آرام رکھتا ہوں

کسی شے میں ، ظفرؔ ، بس کُچھ مِلا دیتا ہُوں چپکے سے
یہ طرزِ خاص ہے میری جسے مَیں عام رکھتا ہُوں

ظفر اقبال

Comments