اپنے دل ہی پہ بھروسا میں سفر میں رکھوں

اپنے دل ہی پہ بھروسا میں سفر میں رکھوں
کون ہے راہ نما، کس کو نظر میں رکھوں

جب قدم میں تری یادوں کے نگر میں رکھوں
یہ بھی اک خواب ہے، سودا یہی سر میں رکھوں

کاش اتنی تو در و دیوار کو وسعت مل جائے
اپنے دشمن کو بھی میں اپنے ہی گھر میں رکھوں

لاکھ مغلوب کرے نیند، اندھیرا کھنکے
وا درِ چشم کو امید سحر میں رکھوں

پا برہنہ ہیں ابھی اور بھی آنے والے
برسرِ خار قدم راہ گذر میں رکھوں

تیری یادوں کا سفینہ ادھر آئے نہ اگر
ایک آنسو بھی نہ میں دیدہء تر میں رکھوں

بعد مدت کے پھر آج ان کا خیال آیا ہے
اک دیا آج تو میں، دل کے کھنڈر میں رکھوں

شعلہء غم ، کہ بھڑکتا ہے جو دل میں پیہم
بن پڑے تو میں دل شمس و قمر میں رکھوں

تتلیاں جمع کروں اور تیری تصویر بناؤں
اس کو خوشبوکدہ عود و اگر میں رکھوں

ہجر کو وصل کہوں، وصل کو اک خواب بناؤں
کوئی پہلو تو میں حیرت کا خبر میں رکھوں

راغب ایسا میں کروں قصرِ محبت تعمیر
رخنہ باقی کسی دیوار نہ در میں رکھوں

(راغب مراد آبادی)

Comments