طبیعت کو افسردہ سا پارہا ہوں

طبیعت کو افسردہ سا پارہا ہوں
اِدھر جارہا ہوں، اُدھر جارہا ہوں
وہ باتیں نہیں ہیں، وہ ہنسنا نہیں ہے
بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے
خدا جانے یہ مجھ کو کیا ہوگیا ہے
یہ محسوس کرتا ہوں کچھ کھو گیا ہے
مجھے ہوش تک ہائے اپنا نہیں ہے
بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے
یہ آنکھوں میں کیوں اشک سے آرہے ہیں
لبِ پُرشکن کیوں یہ تھرّا رہے ہیں
ارے توبہ یہ میرا منشا نہیں ہے
بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے
جو ہونا تھی وہ ہوچکی میری خواری
اب آؤ نہ آؤ یہ مرضی تمہاری
مرا تم سے کوئی تقاضا نہیں ہے
بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے
کرے تم سے بہزاد کیا اب شکایت
بُرا ہے مقدر بُری ہے یہ قسمت
یہ کیا ہے جو قسمت کا لکھا نہیں ہے
بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے
بہزاد لکھنوی

Comments