تجھ کو کو آتے ہی نہیں چپھنے کے انداز ابھی

تجھ کو کو آتے ہی نہیں چپھنے کے انداز ابھی
میرے سینے میں ہے لرزاں تری آواز ابھی



اس نے دیکھا ہی نہیں درد کا آغاز ابھی
عشق کو اپنی تمناؤں پہ ہے ناز ابھی
تجھکو منزل پہ پہنچنے کا ہے دعویٰ ہمدم
مجھ کو انجام نظر آتا ہے آغاز ابھی
کس قدر گوش بر آواز ہے خاموشیء شب
کوئ نالہ ہے کہ فریاد کا درباز ابھی
میرے چہرے کی ہنسی رنگِ شکستہ میرا
تیرے اشکوں میں تبسم کا ہے انداز ابھی
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم

Comments