دل سے فشار درد سوئے سر بھی آئے گا


دل سے فشارِ درد سُوئے سر بھی آئے گا
تہہ میں بھنور بنا ہے تو اوپر بھی آئے گا
بینائی لوٹ آئی ہے تو صبر کیجیے
بے منظری کی دُھند میں منظر بھی آئے گا
سرحد کے اس طرف نہ سہی اُس طرف سہی
چلتے رہو ضرور کہیں گھر بھی آئے  گا
رکھ سائباں کے ساتھ سفر میں سفینہ بھی
یہ دشت وہ ہے جس میں سمندر بھی آئے گا
پردے میں دیر تک نہیں رہتا سفر پسند
اندر لگا ہے زخم تو باہر بھی  آئے گا
تنہا نہ جانئے مجھے اس رزم گاہ میں
میں آگیا ہوں تو مرا لشکر بھی آئے گا
میں شہرِ نٙو میں آتے ہوئے خوش تو ہوں مگر
اک خوف سا ہے ساتھ مقدر بھی آئے  گا
سوچا نہ تھا کہ مجھ سا کوئی اُس طرف بھی ہے
سوچا نہ تھا کہ تیر پلٹ کر بھی آئے  گا
شاہد برس رہی ہے اگر بادلوں سے آگ
چشمہ کوئی چٹان سے باہر بھی آئے گا

شاہد زکی

Comments