ناشناس اتنا ہوں تکمیل کے ادراک سے میں

ناشناس اتنا ہوں تکمیل کے ادراک سے میں
ایسا لگتا ہے کہ اترا ہی نہیں چاک سے میں
میری تخلیق کی مٹی میں اضافی بھی ہے کچھ
بے تکلف نہیں ہو پایا ابھی خاک سے  میں
روز اترے گی مری پیاس سرِ آبِ فرات
روز نکلوں گا کسی گریہؑ خوں ناک سے میں
مری منزل بھی وہی ہے مرا جادہ بھی وہی
خاک پر آیا ہوں ہوتا  ہوا افلاک سے میں
جان لوں پہلے سوا نیزے پہ سورج کا مزاج
پھر کسی روز نکل آؤں گا پوشاک سے میں
سوزِ دل، دیدہء نمناک اور اک اسم کا ورد
عمر بھر پلتا رہا ہوں اسی خوراک سے میں
اُس بلندی پہ کھڑا ہوں جہاں آسانی سے
چھین سکتا ہوں عٙلٙم خسروِ سفاک سے میں
روز سامان کی ترتیب بدل دیتا ہے
سخت بیزار ہوں اس طفلکِ چالاک سے میں

رانا غلام محی الدین

Comments